جو بھی رند خراب ہوتے ہیں
آدمی لا جواب ہوتے ہیں
کھو کے ہم کو وہ آج کہتے ہیں
لوگ ایسے نایاب ہوتے ہیں
نفرتوں کو سنبھال کے رکھنا
زندگی کے عذاب ہوتے ہیں
یہ جو خدمت کے کام ہیں واعظ
یہ بھی کارِ ثواب ہوتے ہیں
وہ جو کرتے ہیں عزتیں سب کی
خود وہ عزت مآب ہوتے ہیں
جانے کیسے فریب دیتے ہیں
وہ جو اپنے سراب ہوتے ہیں
گو قیامت ہے دن حسابوں کا
روز یاں بھی حساب ہوتے ہیں
جن کو تعبیر ہی نہیں ملتی
کچھ تو ایسے بھی خواب ہوتے ہیں
سایہ کرتے درخت ہیں جتنے
خود وہ زیرِ عتاب ہوتے ہیں
ظُلمتوں سے جو لڑ کے مرتے ہیں
روشنی کا نصاب ہوتے ہیں
ساتھ کانٹوں کا کیا کریں نُوری
چہرے یوں تو گُلاب ہوتے ہیں
ظفر اقبال نوری
No comments:
Post a Comment