Friday, 24 January 2025

جو بھی رند خراب ہوتے ہیں

 جو بھی رند خراب ہوتے ہیں

آدمی لا جواب ہوتے ہیں

کھو کے ہم کو وہ آج کہتے ہیں

لوگ ایسے نایاب ہوتے ہیں

نفرتوں کو سنبھال کے رکھنا

زندگی کے عذاب ہوتے ہیں

یہ جو خدمت کے کام ہیں واعظ

یہ بھی کارِ ثواب ہوتے ہیں

وہ جو کرتے ہیں عزتیں سب کی

خود وہ عزت مآب ہوتے ہیں

جانے کیسے فریب دیتے ہیں

وہ جو اپنے سراب ہوتے ہیں

گو قیامت ہے دن حسابوں کا

روز یاں بھی حساب ہوتے ہیں

جن کو تعبیر ہی نہیں ملتی

کچھ تو ایسے بھی خواب ہوتے ہیں

سایہ کرتے درخت ہیں جتنے

خود وہ زیرِ عتاب ہوتے ہیں

ظُلمتوں سے جو لڑ کے مرتے ہیں

روشنی کا نصاب ہوتے ہیں

ساتھ کانٹوں کا کیا کریں نُوری

چہرے یوں تو گُلاب ہوتے ہیں


ظفر اقبال نوری

No comments:

Post a Comment