Wednesday, 22 January 2025

کہتا ہوں میں کہ غیر نے ہرگز کہا نہیں

 کہتا ہوں میں کہ غیر نے ہرگز کہا نہیں

تجھ کو نہ ہو قبول جو میری دعا نہیں

ان پانیوں کسی کو ڈبوئے نہ شرم شوق

میں آب آب اس کی طرف دیکھتا نہیں

سو رخ سے چومتا ہے تِرا پیرہن خیال

سب میں ہوں میری جان یہ موج ہوا نہیں

حیراں کھڑا ہوں وصل و جدائی کے درمیاں

میں کس شمار میں ہوں اگر آئینہ نہیں

گزرا مِرے درون سے تُو ہی برنگِ عمر

اب جانے وہ درون بھی میرا تھا یا نہیں

چٹکی مہک اٹھی ہے یہ کیسی امید کی

اب تک تو دسترس میں وہ بندِ قبا نہیں

کام و دہن کو بخش چکا ہے جو پہلے بین

اب شہدِ شعر دے بھی تو کوئی مزا نہیں


محمد اعظم

No comments:

Post a Comment