کچھ بچا لے ابھی آنسو مجھے رونے والے
سانحے اور بھی ہیں رونما ہونے والے
وقت کے گھاٹ اتر کر نہیں واپس لوٹے
داغ ملبوس مہ و مہر کے دھونے والے
دائم آباد رہے دار فنا کے باسی
فکر میں روح بقایاب سمونے والے
تھرتھراتی رہے اب خواہ ہمہ وقت زمیں
سو گئے خاک ابد اوڑھ کے سونے والے
جس پہ بھی پاؤں دھرا میں نے اسی ناؤ میں
آئے آثار نظر خود کو ڈبونے والے
اب لیے پھرتا ہے کیا دامن صد چاک اپنا
کیا ہوئے اب وہ ترے سینے پرونے والے
جا نکلتا ہے اچانک وہیں رستہ میرا
در پئے پا ہوں جہاں خار چبھونے والے
گرد ہے ہاتھ میں ان کے مری کشت زرخیز
خار و خس سے جو علاوہ نہیں بونے والے
یہ بھی اک طرفہ تماشہ ہے کہ ہیں اندھیارے
ریشۂ شب میں ستاروں کو پرونے والے
کر گئے خشک بھری جھیل تأسف کے کنول
سوکھ کر کانٹا ہوئے رات بھگونے والے
دے گیا ہے جو ہمیں عہد مراسم اس کا
اس خزانے کو نہیں ہم نہیں کھونے والے
خاور جیلانی
No comments:
Post a Comment