ایقان ہے رہبر پہ نہ ایماں ہے خضر میں
ایسا بھی مقام آیا تِری رہ گُزر میں
مجنوں کی طرح طِفل لیے سنگ ہیں پیچھے
رُسوا ہوئے ہم ایسے زمانے کی نظر میں
بیمارِ محبت کی دوا کیا کریں تجویز
تریاق بھی بن جائے زہر اپنے اثر میں
مونس کوئی دنیا میں نہ اپنا کوئی ہمدم
ہر ایک ہے بے گانہ زمانے کی نظر میں
منزل کی تمنا نہ ٹھکانے کی ہے خواہش
غُربت ہے مقدر میں اٹھے گام سفر میں
رو رو کے گُزاری ہیں شبِ ہجر کی گھڑیاں
ایک پل بھی لگی آنکھ نہ امیدِ سحر میں
اسعد یوں جلا آتشِ ہجراں میں کہ جیسے
جلتا ہو گُنہ گار کوئی نارِ سقر میں
اسعد مجددی اسد
اسعد احمد مجددی
No comments:
Post a Comment