پھر میری داستانِ اذیت دراز ہے
پھر میرے آگے درد کی راہِ فراز ہے
کب کوئی نخل، کب کوئی سایہ مِرے لیے
صحرا کی تیز دھوپ ہی زلفِ دراز ہے
زخموں کی تاب بھی نہ رہی اب تو جان میں
اور عیشِ جاں کا سلسلہ اب بھی دراز ہے
مضرابِ زیست ہاتھ سے کب کی نکل چکی
اور ساز بج رہا ہے ابھی تک، کہ ساز ہے
میں اپنی روح، اپنا لہو، اپنی آنکھ ہوں
یہ دشمنی کا یار کو مجھ سے جواز ہے
سجدے بھی اب تو چھین لیے ہیں امام نے
اب خود ہی جو امام کہے، وہ نماز ہے
سالم وہ راز تھا تو کوئی جستجو بھی تھی
اب جستجو رہی نہ کوئی راز راز ہے
فرحان سالم
No comments:
Post a Comment