Wednesday, 22 January 2025

چاہت کے پرندے دل ویراں میں آئے

 چاہت کے پرندے دل ویراں میں آئے

صیاد کسی صید کے ارماں میں آئے

وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہو نا

اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آئے

سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج

پگھلائے مجھے برف کی دُکاں میں آئے

سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھُو کر

ہے دُھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آئے

نغمہ ہے تو پھُوٹے کبھی ساز رنگ جاں سے

آواز کوئی ہے تو مرے کان میں آئے

ہے جسم تو بن جائے مری روح کا مسکن

ہے جان تو پھر اس تن بے جان میں آئے

ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو

ہے موج بلا خیز تو طوفان میں آئے

شعلہ ہے تو پگھلائے میرے شیشۂ جان کو

ہے بادۂ کون ناب تو مژگاں میں آئے

امرت ہے تو چمکے لب لعلیں سے سے کسی کے

ہے زہر تو بازار سے سامان میں آئے

ہے درد تو سیلاب بنے پار لگائے

درماں ہے تو بن کر دوا افنجان میں آئے

غنچہ ہے تو کھل جائے مرے دل کی صدا پر

خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آئے

کہتی ہے تو احساس کی کلیوں سے بھی کھیلے

ہے پھول تو تخیل کے گل دان میں آئے

فرمان وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے

آئے مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آئے


فرمان فتحپوری

No comments:

Post a Comment