چاہت کے پرندے دل ویراں میں آئے
صیاد کسی صید کے ارماں میں آئے
وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہو نا
اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آئے
سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج
پگھلائے مجھے برف کی دُکاں میں آئے
سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھُو کر
ہے دُھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آئے
نغمہ ہے تو پھُوٹے کبھی ساز رنگ جاں سے
آواز کوئی ہے تو مرے کان میں آئے
ہے جسم تو بن جائے مری روح کا مسکن
ہے جان تو پھر اس تن بے جان میں آئے
ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو
ہے موج بلا خیز تو طوفان میں آئے
شعلہ ہے تو پگھلائے میرے شیشۂ جان کو
ہے بادۂ کون ناب تو مژگاں میں آئے
امرت ہے تو چمکے لب لعلیں سے سے کسی کے
ہے زہر تو بازار سے سامان میں آئے
ہے درد تو سیلاب بنے پار لگائے
درماں ہے تو بن کر دوا افنجان میں آئے
غنچہ ہے تو کھل جائے مرے دل کی صدا پر
خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آئے
کہتی ہے تو احساس کی کلیوں سے بھی کھیلے
ہے پھول تو تخیل کے گل دان میں آئے
فرمان وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے
آئے مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آئے
فرمان فتحپوری
No comments:
Post a Comment