موت کے دم سے زندگی ہے عزیز
غم کی آغوش میں خوشی ہے عزیز
آپ کو برتری مبارک ہو
مجھ کو احساسِ کمتری ہے عزیز
یہ بھی گویا ہے اک تعلقِ خاص
آپ کی بے تعلقی ہے عزیز
میں تہی جام ہوں تو رہنے دو
مجھ کو بے کیف زندگی ہے عزیز
انتہائے کرم نہ ہو جائے
اس لیے تنگ دامنی ہے عزیز
عشق مجبورِ آہ ہے لیکن
حسن کا احترام بھی ہے عزیز
جینے والے ہیں موت کے خواہاں
مرنے والوں کو زندگی ہے عزیز
اب نہیں تابِ التفات مجھے
آپ کی بے توجہی ہے عزیز
حُسن گرویدۂ مسرت ہے
عشق کو غم کی سادگی ہے عزیز
تجھ کو کیا ہو گیا ہے دیوانے؟
موسمِ گُل میں آگہی ہے عزیز
مسلکِ عشق ہے فقیرانہ
حُسن کو شانِ خُسروی ہے عزیز
بحرِ ہستی میں کیوں حباب تجھے
بے سبب اتنی خُود سری ہے عزیز
سید حباب ترمذی
No comments:
Post a Comment