ہر بار ہی میں جان سے جانے میں رہ گیا
میں رسم زندگی جو نبھانے میں رہ گیا
آتا ہے میری سمت غموں کا نیا ہجوم
اللہ میں یہ کیسے زمانے میں رہ گیا
وہ موسم بہار میں آ کر چلے گئے
پھولوں کے میں چراغ جلانے میں رہ گیا
ساتھی مِرے کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا
دار و رسن سجائے گئے جس کے واسطے
اک ایسا شخص میرے زمانے میں رہ گیا
بڑھتے چلے گئے جو وہ منزل کو پا گئے
میں پتھروں سے پاؤں بچانے میں رہ گیا
عمیر منظر
No comments:
Post a Comment