شکستہ ناؤ ہے دھارے ہیں کیا کیا جائے
کہ دور ہم سے کنارے ہیں کیا کیا جائے
کہیں بھی جائیے، اہلِ نظر نہیں ملتے
ہمارے پاس نظارے ہیں کیا کیا جائے
یہی ہیں وہ کہ جنہیں آستیں میں پالا تھا
یہ ہی تو لوگ ہمارے ہیں کیا کیا جائے
گنوا کے علم کی کنجی، لُٹا کے دولتِ فن
ہم آج ہاتھ پسارے ہیں کیا کیا جائے
لو بک گئے ہیں درختوں کے سارے سائے قمر
ہم ایک دھوپ کے مارے ہیں کیا کیا جائے
قمر گوالیاری
No comments:
Post a Comment