فروخت کرتے تھے ایمان، وہی ہیں ہم بھی جو
نقاب چہروں پہ رکھے، گماں میں گم بھی جو
کبھی تھے تیشۂ فرہاد، بے خطر جن کے
وہی ہیں خواب کی تعبیر سے بہم بھی جو
زمانے سجدہ گزار، علم و ہنر کی تاب
وہی ہیں مصلحتوں میں رواں قدم بھی جو
ہمیں نے بیچ دی دیوارِ حرم کی خاک
وہی ہیں آج تہی دست و بے حرم بھی جو
گزر چکا ہے وہ دورِ سکون و جذبۂ شوق
نہ اب وہ چہرے ہیں روشن، نہ دل میں دم بھی جو
نہ اب وہ حرفِ صداقت، نہ اب وہ علم کی لور
وہی ہیں آج مسافر، سفر میں خم بھی جو
مگر اٹھائیں گے پھر سے یہ کارواں کا بوجھ
وہی ہوں گے جو رہبر، وہی قلم بھی جو
سراج! پھر سے ہو روشن چراغ دل کا مگر
ضرورت اس کی ہے خود کو کریں رقم بھی جو
سراج الحق
No comments:
Post a Comment