Wednesday, 15 January 2025

نہ میں سمجھا کسی کو نہ کوئی مجھ کو سمجھ پایا

 یہ سب کیا تماشا ہے؟


نہ میں سمجھا کسی کو

نہ کوئی مجھ کو سمجھ پایا

حیات اور موت کے مابین

نہ رشتہ سمجھ آیا

بہت بھٹکے ہیں ہیں بچپن سے

سوال، آوارگی اور میں

سوال انگلی پکڑ کر لے گیا

دنیا کے میلے میں

مذاہب، فرقے، رشتے، جھوٹ

نفرت، بُغض، خونریزی

نہیں اچھا لگا میلہ

کسی سے کچھ نہیں پایا

سوائے ہم سخن کے

سب ملے، ملتے رہے مجھ کو

وہ سارے ٹھیک تھے

بس میں ہی ان میں نامناسب تھا

کئی رشتے بنائے

سب کے سب نا خوش رہے مجھ سے

میری ماں مجھ کو بچپن سے ہی

بوڑھی روح کہتی تھی

اندھیرا دوست تھا میرا

اداسی راس تھی مجھ کو

میں تنہائی میں بیٹھا

دیر تک خاموشی سنتا تھا

کبھی سوچا کوئی ہوتا

میرے زخموں پہ مرہم رکھ کے جو کہتا

مجھے سب اپنے غم دے دو

اداسی بانٹ لو مجھ سے

سیاہی اپنے مقدر کی میری تقدیر میں بھر دو

مگر کوئی نہیں آیا

کسی کُتے کی طرح

خود ہی اپنے زخم چاٹے

چاٹ کر آرام ملتا تھا

میں بچپن میں بھی پگڈنڈی پہ بیٹھا سوچا کرتا تھا

یہ دنیا کیوں ہے؟

میں کیوں ہوں یہاں؟

سب کیا تماشا ہے؟

ذہن کی کوکھ جنتی ہی رہی حیرت

کبھی الجھن

پھر اک دن بین اٹھے گھر سے

یہ ماں کو کیا ہوا دیکھو؟

ہر ایک آیت، درور پاک

جو ماں نے پڑھایا تھا

سب کچھ پڑھ لیا میں نے

تیری خوشنودی کی خاطر

جو بھی ماں نے سکھایا تھا

وہ سب کچھ کر لیا میں نے

مگر ماں بچ نہیں پائی

میری ماں مر گئی اللہ

اور اب دل کے قریب ایک گھاؤ ہے

جو بھر نہیں پاتا

وہاں سے خون رِستا ہے


محسن عباس حیدر

No comments:

Post a Comment