Sunday, 12 January 2025

نفرت ہے فضا میں تو محبت بھی بہت ہے

 نفرت ہے فضا میں تو محبت بھی بہت ہے

جینے کے لیے درد کی دولت بھی بہت ہے

ہے دست ستم گر کو اگر فرصت آزار

دکھیاروں میں دکھ سہنے کی ہمت بھی بہت ہے

کچھ شمع کہ ہے حسن جہاں سوز کا جادو

پروانوں میں کچھ شوقِ شہادت بھی بہت ہے

مائل بہ کرم بھی ہوا کرتے ہیں وہ وکثر

تعزیر پسند اپنی طبیعت بھی بہت ہے

ہیں قتل پہ آمادہ ہمہ وقت وہ اس کے

جس کے لیے آنکھوں میں مروت بھی بہت ہے

اب دست مسیحا کی کرامات ہیں وہ چند

مرہم بھی ہے سامانِ جراحت بھی بہت ہے


مسلم شمیم

No comments:

Post a Comment