نفرت ہے فضا میں تو محبت بھی بہت ہے
جینے کے لیے درد کی دولت بھی بہت ہے
ہے دست ستم گر کو اگر فرصت آزار
دکھیاروں میں دکھ سہنے کی ہمت بھی بہت ہے
کچھ شمع کہ ہے حسن جہاں سوز کا جادو
پروانوں میں کچھ شوقِ شہادت بھی بہت ہے
مائل بہ کرم بھی ہوا کرتے ہیں وہ وکثر
تعزیر پسند اپنی طبیعت بھی بہت ہے
ہیں قتل پہ آمادہ ہمہ وقت وہ اس کے
جس کے لیے آنکھوں میں مروت بھی بہت ہے
اب دست مسیحا کی کرامات ہیں وہ چند
مرہم بھی ہے سامانِ جراحت بھی بہت ہے
مسلم شمیم
No comments:
Post a Comment