Sunday, 12 January 2025

شب کی مسرتیں نہیں صبح کی دلکشی نہیں

شب کی مسرتیں نہیں صبح کی دلکشی نہیں

دور ہو تم تو زندگی وہم ہے زندگی نہیں

پھول کبھی کھلے تو کیا، غنچے کبھی ہنسے تو کیا

جس سے چمن چمن بنے اب وہ بہار ہی نہیں

ساقئ مے کدہ کے ساتھ رونقِ مے کدہ گئی

دردِ شراب اک طرف، ذکرِ شراب بھی نہیں

خود پہ ہے اختیار کب، ان پہ جو اختیار ہو

دل سے بھلا دیں ان کو ہم بس میں یہ بات بھی نہیں

تلخئ ہجر میں تیری یاد ہے وجہِ انبساط

اشک ہی مسکرا اٹھیں لب پہ اگر ہنسی نہیں

مجھ کو سزا سے واسطہ مجھ کو جزا سے کیا غرض

جس میں فریب عقل ہو عشق وہ بندگی نہیں

میری نگاہِ شوق سے چھپ کے نہ رہ سکو گے تم

موجِ نسیم سے بچے ایسی کوئی کلی نہیں

نیر بے قرار ہوا اور تمہاری یاد ہو

اس کے سوا اب اور کچھ مقصدِ زندگی نہیں


مصطفیٰ حسین نیر

No comments:

Post a Comment