شب کی مسرتیں نہیں صبح کی دلکشی نہیں
دور ہو تم تو زندگی وہم ہے زندگی نہیں
پھول کبھی کھلے تو کیا، غنچے کبھی ہنسے تو کیا
جس سے چمن چمن بنے اب وہ بہار ہی نہیں
ساقئ مے کدہ کے ساتھ رونقِ مے کدہ گئی
دردِ شراب اک طرف، ذکرِ شراب بھی نہیں
خود پہ ہے اختیار کب، ان پہ جو اختیار ہو
دل سے بھلا دیں ان کو ہم بس میں یہ بات بھی نہیں
تلخئ ہجر میں تیری یاد ہے وجہِ انبساط
اشک ہی مسکرا اٹھیں لب پہ اگر ہنسی نہیں
مجھ کو سزا سے واسطہ مجھ کو جزا سے کیا غرض
جس میں فریب عقل ہو عشق وہ بندگی نہیں
میری نگاہِ شوق سے چھپ کے نہ رہ سکو گے تم
موجِ نسیم سے بچے ایسی کوئی کلی نہیں
نیر بے قرار ہوا اور تمہاری یاد ہو
اس کے سوا اب اور کچھ مقصدِ زندگی نہیں
مصطفیٰ حسین نیر
No comments:
Post a Comment