برہنہ لفظ ہیں عریاں قلم ہونے لگا ہے
نمایاں شعر میں پہلوئے ذم ہونے لگا ہے
کوئی ڈالر کا شیدائی، تو کوئی پونڈ کا ہے
ادب معیارِ دینار و درہم ہونے لگا ہے
پڑھے لکھے بھی کرتے ہیں بینائی کا شکوہ
کُتب بینی کا جب سے شوق کم ہونے لگا ہے
سبھی کو چھاؤں سے محروم ہو جانے کا دُکھ ہے
ہمارے گھر کا بوڑھا پیڑ خم ہونے لگا ہے
ستارے تیری راہوں میں بچھے ہیں اس طرح سے
فروزاں پھر مِرا نقشِ قدم ہونے لگا ہے
ابھی تو میں نے چھیڑا ہی نہیں اپنا فسانہ
تِرا رُخسار کیوں پہلے سے نم ہونے لگا ہے
نور امروہوی
No comments:
Post a Comment