لے گئی دور مجھے گھر سے جُدائی تیری
پھر بھی اُتری نہ مِرے سر سے جدائی تیری
میں جہاں ڈُوب گیا، ڈُوب گیا اُبھرا نہیں
یعنی گہری ہے سمندر سے جدائی تیری
جانے والے میں تُجھے یاد کیے جاتا ہوں
چُنتا رہتا ہوں میں بستر سے جدائی تیری
شام ڈھلتی ہے تو آواز مجھے دیتی ہے
میرے پیمانے کے اندر سے جدائی تیری
اب مِرے زخم دوا بننے لگے ہیں محبوب
کاٹ دی وقت کے خبجر سے جدائی تیری
محبوب صابر
No comments:
Post a Comment