شباب آیا تو آیا اک بلائے ناگہانی ہو کر
مِری ہستی فقط اب رہ گئی ہے داستاں ہو کر
چھُپاتا میں کہاں تک راز آخر کھُل گیا دل کا
نظر نے کہہ دیا سب کچھ خموشی کی زباں ہو کر
زمیں کانپی،۔ فلک چکرا گیا،۔ تقدیر گھبرائی
مِری جانب جو تُو نے آج دیکھا مہرباں ہو کر
زمانے بھر میں رُسوا ہوں مِرا چرچا ہے گھر گھر میں
نہ پوچھو کیا لیا میں نے،۔ تمہارا رازداں ہو کر
مقامِ بے نشاں تھی میری منزل کس طرح ملتی
سرابِ دشت نے دھوکا دیا آبِ رواں ہو کر
جنابِ شیخ کی محفل میں بھی چرچا ہے اب اپنا
یہ شہرت مل گئی ہے سحر رُسوائے جہاں ہو کر
سحر پریمی
ڈی کے بھلہ(دیویندر کمار بھلہ)
No comments:
Post a Comment