Thursday, 16 January 2025

حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر

 حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر

پڑھ لیا قسمت کا لکھا لوح تربت دیکھ کر

اس قدر بے خود ہوا آثار وحشت دیکھ کر

آئینہ سے نام پوچھا اپنی صورت دیکھ کر

جام کوثر دست ساقی میں نظر آیا مجھے

اٹھ گیا آنکھوں کا پردہ ابر رحمت دیکھ کر

تیرے کوچے میں تِرا جلوہ نظر آیا مجھے

صانع جنت کو دیکھا باغ جنت دیکھ کر

منہ ہمارا جلوۂ دیدار کے لائق کہاں

اپنی صورت دیکھتے ہیں تیری صورت دیکھ کر

چار دیوار عناصر پر سفیدی پھر گئی

آنکھیں روشن ہو گئیں تیری صباحت دیکھ کر

وحشت دل حشر کے دن بھی رہے کاؤس طلب

کانٹے ڈھونڈھے ہم نے صحرائے ‌ قیامت دیکھ کر

چہچہے بلبل کے آواز کف افسوس ہوں

رنگ گل اڑ جائے میرا داغ حسرت دیکھ کر

ابر ادھر آیا ادھر مے خواروں کا بیڑا ہے پار

کشتیِ مے مول کے دریائے رحمت دیکھ کر

آنسو پونچھے یاد آیا جب جوانی کا مزا

آنکھیں ملتے رہ گئے ہم خواب راحت دیکھ کر

برہمن کعبہ میں آیا شیخ پہونچا دیر میں

لوگ بے وحدت ہوئے ہیں تیری کثرت دیکھ کر

ہر گھڑی آتی ہے کانوں میں یہ آواز جرس

کون دنیا سے سفر کرتا ہے ساعت دیکھ کر

نشہ کے اسباب تزئیں میں بھی نشہ ہے ضرور

میری آنکھیں چڑھ گئیں میخانہ کی چھت دیکھ کر

اب نہیں نازک مزاجی سے توجہ کا دماغ

اے اجل آنا کبھی ہنگام فرصت دیکھ کر

وہ موحد ہوں نہ رکھا دوسرے سے اتحاد

روح نے چھوڑا بدن کو ضد وحدت دیکھ کر

خون بلبل سے مگر سینچا ہے باغ دہر کو

ہم لہو برساتے ہیں پھولوں کی رنگت دیکھ کر

تیرے بندے سر جھکاتے ہیں بتوں کے سامنے

سجدے کرتا ہوں الٰہی تیری قدرت دیکھ کر

جی لگا کر یہ غزل کس طرح کہئے اے منیر

بجھ گیا دل کوچ منزل کی عزیمت دیکھ کر


منیر شکوہ آبادی

No comments:

Post a Comment