Saturday, 1 February 2025

یادوں کے انبار لگے تھے

 یادوں کے انبار لگے تھے

خالی پیکٹ بھرے پڑے تھے

جانے کون سا دکھ حاوی تھا

جانے کیوں اتنا ہنستے تھے

اس بیزار گلی سے ہو کر

ہم اکثر آتے جاتے تھے

خوابوں کے بوسیدہ منظر

آنکھوں آنکھوں جھانک رہے تھے

آوازوں کے گونگے لشکر

رات کا سینہ چیر رہے تھے

گل دانوں کو یاد نہیں اب

پہلے کون سے پھول سجے تھے

ہم بھی پاگل تھے جو تم سے

اپنا جی ہلکا کرتے تھے

کیسی وحشت ناک فضا تھی

چائے کے خالی کپ کہتے تھے

میری اس ویران سرا تک

کچھ سائے پیچھا کرتے تھے

کتنی پرانی خبریں تھی وہ

جن کو ہم تازہ کرتے تھے

افسانوں کی بھیڑ میں کھو کر

ہم خود کو ڈھونڈا کرتے تھے


سہیل آزاد

No comments:

Post a Comment