یادوں کے انبار لگے تھے
خالی پیکٹ بھرے پڑے تھے
جانے کون سا دکھ حاوی تھا
جانے کیوں اتنا ہنستے تھے
اس بیزار گلی سے ہو کر
ہم اکثر آتے جاتے تھے
خوابوں کے بوسیدہ منظر
آنکھوں آنکھوں جھانک رہے تھے
آوازوں کے گونگے لشکر
رات کا سینہ چیر رہے تھے
گل دانوں کو یاد نہیں اب
پہلے کون سے پھول سجے تھے
ہم بھی پاگل تھے جو تم سے
اپنا جی ہلکا کرتے تھے
کیسی وحشت ناک فضا تھی
چائے کے خالی کپ کہتے تھے
میری اس ویران سرا تک
کچھ سائے پیچھا کرتے تھے
کتنی پرانی خبریں تھی وہ
جن کو ہم تازہ کرتے تھے
افسانوں کی بھیڑ میں کھو کر
ہم خود کو ڈھونڈا کرتے تھے
سہیل آزاد
No comments:
Post a Comment