آگ زخموں کی جلا کر دیکھو
جی کو اک روگ لگا کر دیکھو
کتنی معصوم ہے روداد حیات
خود کو آسیب بنا کر دیکھو
شکوۂ نیم نگاہی ہے غلط
پھر تو چہرہ ہی ملا کر دیکھو
کیا کہیں لفظ محبت ہے گراں
دل کے اوراق اٹھا کر دیکھو
کتنے چہرے ہیں نقاب آلودہ
لو چراغوں کی بڑھا کر دیکھو
اپنی بچھڑی ہوئی تنہائی سے
کیوں نہ اک بار وفا کر دیکھو
بہتی موجوں کو قرار آ جائے
نغمۂ درد سنا کر دیکھو
کتنے شفاف ہیں یادوں کے بدن
تم انہیں ہاتھ لگا کر دیکھو
دل کی جنت کو سکوں کچھ تو ملے
دشت و صحرا ہی بسا کر دیکھو
بستر گل پہ بہت رات گئے
کوئی سوتا ہے جگا کر دیکھو
ان مکانوں میں مکیں کوئی نہیں
ویسے زنجیر ہلا کر دیکھو
نام اپنا بھی کہیں ہے کہ نہیں
میرا دیوان اٹھا کر دیکھو
میر نقی علی خاں ثاقب
No comments:
Post a Comment