Thursday, 6 February 2025

کہسار ہنر مجھ سے ابھی سر نہ ہوا تھا

 کہسار ہنر مجھ سے ابھی سر نہ ہوا تھا

میں چاک گریباں کا رفو گر نہ ہوا تھا

دیوار کی تحریر نے کوشش تو بہت کی

آموختہ اکثر مجھے ازبر نہ ہوا تھا

دنیا کے لیے مجھ میں کشش کس لیے ہوتی

گردش میں رہا میں کبھی محور نہ ہوا تھا

معلوم اسے خوب تھے اک سر کے مصارف

دیوار بنا شخص کبھی در نہ ہوا تھا

اس کے تو مکاں جیسے خد و خال نہیں تھے

جب تک کہ یہی دشت مِرا گھر نہ ہوا تھا.

داروغۂ غم خوب نظر رکھتے تھے لیکن

اک سانحہ اس دل پہ مقرر نہ ہوا تھا

ہر نیند کے پہلو میں کئی پھول تھے لیکن

تعبیر سے ہر خواب معطر نہ ہوا تھا

اس بار ستاروں نے بھی عطیات دئیے تھے

اس بار مگر چاند منور نہ ہوا تھا


محمد افتخارالحق سماج

No comments:

Post a Comment