کہسار ہنر مجھ سے ابھی سر نہ ہوا تھا
میں چاک گریباں کا رفو گر نہ ہوا تھا
دیوار کی تحریر نے کوشش تو بہت کی
آموختہ اکثر مجھے ازبر نہ ہوا تھا
دنیا کے لیے مجھ میں کشش کس لیے ہوتی
گردش میں رہا میں کبھی محور نہ ہوا تھا
معلوم اسے خوب تھے اک سر کے مصارف
دیوار بنا شخص کبھی در نہ ہوا تھا
اس کے تو مکاں جیسے خد و خال نہیں تھے
جب تک کہ یہی دشت مِرا گھر نہ ہوا تھا.
داروغۂ غم خوب نظر رکھتے تھے لیکن
اک سانحہ اس دل پہ مقرر نہ ہوا تھا
ہر نیند کے پہلو میں کئی پھول تھے لیکن
تعبیر سے ہر خواب معطر نہ ہوا تھا
اس بار ستاروں نے بھی عطیات دئیے تھے
اس بار مگر چاند منور نہ ہوا تھا
محمد افتخارالحق سماج
No comments:
Post a Comment