Tuesday, 4 February 2025

جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے

 جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے

بدل دیا ہے اب انداز بے رخی اس نے

وہ رنگ رنگ اڑا خوشبوؤں میں پھیل گیا

جھٹک دیا ہے مرا دامن تہی اس نے

جسے سنا کے مجھے خوف سر زنش سا رہا

اسی کلام پہ بڑھ چڑھ کے داد دی اس نے

وہ میرے ساتھ شروع سفر چلا تھا مگر

ہجوم شہر میں لی راہ اور ہی اس نے

ہوا ہوں جرأت جرم وفا سے بھی محروم

سزا یہ دی کہ خطا میری بخش دی اس نے

اب اپنی کوئی صدا ہے نہ اپنا کوئی پتہ

پلا دیا ہے مجھے زہر آگہی اس نے

در سکوت پہ حالی بہت ہے شور صدا

بپا کیا ہے وہ طوفان خامشی اس نے


علیم اللہ حالی

No comments:

Post a Comment