سانسوں کی ہر کنواری جلن بیچتے رہے
ہم ایک دوسرے کا بدن بیچتے رہے
سب لوگ تم پہ مرتے تھے ہم نے یوں کیا
تیرے بغیر جینے کا فن بیچتے رہے
اس شہر میں وفا کا تقاضا عجیب تھا
ہم دور رہ کے اپنا ملن بیچتے رہے
شعروں کے بھیس میں علی عارف تمام عمر
لفظوں کا بوجھ دل کی تھکن بیچتے رہے
علی عارف
No comments:
Post a Comment