Tuesday, 4 February 2025

لفظوں کا بوجھ دل کی تھکن بیچتے رہے

 سانسوں کی ہر کنواری جلن بیچتے رہے

ہم ایک دوسرے کا بدن بیچتے رہے

سب لوگ تم پہ مرتے تھے ہم نے یوں کیا

تیرے بغیر جینے کا فن بیچتے رہے

اس شہر میں وفا کا تقاضا عجیب تھا

ہم دور رہ کے اپنا ملن بیچتے رہے

شعروں کے بھیس میں علی عارف تمام عمر

لفظوں کا بوجھ دل کی تھکن بیچتے رہے

علی عارف

No comments:

Post a Comment