Monday, 3 February 2025

فگن جہاں پہ ہے نفرت کا سائباں اب تک

 فگن جہاں پہ ہے نفرت کا سائباں اب تک

 دُھواں دُھواں ہے یہ مُدت سے آشیاں اب تک

 خیال میں بھی وہ خفگی عذاب دیتی ہے

 کہ سہ رہے ہیں صنم کی وہ سختیاں اب تک

 اُجاڑ پن میں گرِفتہ شعور ہار گیا

 اُداسیوں کی زباں پر ہیں گالیاں اب تک

 مِرے عدو کا کلیجہ نہال کیسے رہے

 پیوستہ سینے میں خونیں ہیں برچھیاں اب تک

 مِلن کی آس ہے ترساں، صدائیں دیتی ہے

 ختم نہ ہونے کو آئیں جُدائیاں اب تک

 ہزار حربوں سے بہلاوے کام آئیں کہاں

 قسم خدا کی نہیں دل یہ شاد یاں اب تک

 جو منزلوں کے تعاقب میں بحر میں اُترِیں 

 ہوا کے رُخ پہ رواں ہیں وہ کشتیاں اب تک

 سویرا کرنے لیاقت کے گھر بھی آئیں کبھی

 تِرے فراق میں روتے ہیں سائیاں اب تک


لیاقت منظور بھٹہ

No comments:

Post a Comment