دی ہے اگر حیات تمنا کیے بغیر
اب موت بھی عطا ہو تقاضا کیے بغیر
بازار زندگی ہے فقط گھومنے کی جا
کچھ بھی یہاں ملے گا نہ سودا کیے بغیر
میں بھی انا پسند ہوں لیکن کروں تو کیا
دل مانتا نہیں اسے سجدہ کیے بغیر
جلوہ نمود جسم ہے اور جسم ہے حجاب
پردے میں کوئی رہتا ہے پردہ کیے بغیر
منسوب کس سے ہوتی پھر آخر متاع دل
میں تم کو چھوڑ دیتا جو اپنا کیے بغیر
یہ کارنامہ ہے دل خود احتساب کا
میں پاکباز ہو گیا توبہ کیے بغیر
فریاد کس سے کیجیے اس چارہ ساز کی
جو چھوڑ دے مریض کو اچھا کیے بغیر
چپ رہ کے مطمئن ہیں نہیں جانتے سروش
کچھ راز فاش ہوتے ہیں چرچا کیے بغیر
محمود سروش
No comments:
Post a Comment