Friday, 7 February 2025

دی ہے اگر حیات تمنا کئے بغیر

 دی ہے اگر حیات تمنا کیے بغیر

اب موت بھی عطا ہو تقاضا کیے بغیر

بازار زندگی ہے فقط گھومنے کی جا

کچھ بھی یہاں ملے گا نہ سودا کیے بغیر

میں بھی انا پسند ہوں لیکن کروں تو کیا

دل مانتا نہیں اسے سجدہ کیے بغیر

جلوہ نمود جسم ہے اور جسم ہے حجاب

پردے میں کوئی رہتا ہے پردہ کیے بغیر

منسوب کس سے ہوتی پھر آخر متاع دل

 میں تم کو چھوڑ دیتا جو اپنا کیے بغیر

یہ کارنامہ ہے دل خود احتساب کا

میں پاکباز ہو گیا توبہ کیے بغیر

فریاد کس سے کیجیے اس چارہ ساز کی

جو چھوڑ دے مریض کو اچھا کیے بغیر

چپ رہ کے مطمئن ہیں نہیں جانتے سروش

کچھ راز فاش ہوتے ہیں چرچا کیے بغیر


محمود سروش

No comments:

Post a Comment