حرم و دَیر و کلیسا سے نکل آیا ہوں
تب کہیں جا کے میں انسان سے مل پایا ہوں
کالے پتھر پہ بھٹکتے ہوئے قدموں کے نشاں
مجھ سے ملیے میں نئی نسل کا سرمایہ ہوں
میں بھی احساس کی بھٹی میں پڑا ہوں یہ بتا
کیسے انگارے تِری ہلکوں پہ دیکھ آیا ہوں
فاصلہ کتنا بھی ہو اس گھنی آبادی میں
یہ حقیقت ہے کہ میں آپ کا ہمسایہ ہوں
مجھ کو ضائع نہ کرو آنکھوں میں رہنے دو مجھے
ہوں تو قطرہ ہی مگر آپ گِراں مایہ ہوں
اور کچھ دیر اسی شاخ پہ رہنے دیجیے
ابھی احساس ہے زندہ ابھی مرجھایا ہوں
مجھ کو الفاظ کا جادو نہیں آتا نقوی
بات جو دل میں رہی ہے وہ نہ کہہ پایا ہوں
محمد احمد نقوی
No comments:
Post a Comment