Wednesday, 5 February 2025

اب دل میں تری یاد اتر آتی ہے جیسے

 اب دل میں تِری یاد اتر آتی ہے جیسے

پردیس میں غمناک خبر آتی ہے جیسے

آتی ہے تِرے بعد خوشی بھی تو کچھ ایسے

اجڑے ہوے پیڑوں پہ سحر آتی ہے جیسے

لگتا ہے ابھی دل نے تعلق نہیں توڑا

یہ آنکھ تِرے نام پہ بھر آتی ہے جیسے

خود آپ ہوا روز اٹھاتی ہے جنازے

اور آپ کہیں دفن بھی کر آتی ہے جیسے

اک قافلۂ ہجر گزرتا ہے نظر سے

اور رُوح تلک گرد سفر آتی ہے جیسے

جلتا ہے کوئی شہر کہیں دامن دل میں

سانسوں میں کبھی راکھ اتر آتی ہے جیسے


علی اکبر منصور 

No comments:

Post a Comment