Wednesday, 5 February 2025

جو دل گیا مرے سینے کا اضطراب گیا

 جو دل گیا مِرے سینے کا اضطراب گیا

بڑا سکون ملا ،۔ خانماں خراب گیا

نہ چل سکی کسی بیکس کی زور والوں سے

تھپیڑے موجوں کے کھاتا ہوا حباب گیا

رہے یہ دیر شہاب اس کے حُسن برہم کا

کہاں وہ لطف جو یہ نشۂ عتاب گیا

یہ کس نے چھیڑ دیا زُلف یار کا قصہ

پھر آج رات بھی آنکھوں سے اپنی خواب گیا

بھروسا تجھ پہ ہو کس طرح ہائے اے پیری

کہ پہلے طِفلی گئی، پھر یونہی شباب گیا

عطا کو لائے تھے سمجھا بُجھا کے کل احباب

پھر آج جانے کہاں خانماں خراب گیا


عطا کاکوی

No comments:

Post a Comment