Tuesday, 4 February 2025

راکھ خوابوں کی کریدو گے تو کیا پاؤ گے

 راکھ خوابوں کی کریدو گے تو کیا پاؤ گے

اور کچھ اپنی اداسی کو سِوا پاؤ گے

چلچلاتی ہوئی اس دھوپ میں نکلو گے اگر

اپنے سائے کا بھی شاید نہ پتہ پاؤ گے

تنگ و تاریک سے اس گھر کے کسی گوشے میں

روشنی اب نہ وہ خوشبو، نہ ہوا پاؤ گے

کیا عجب رات کے بڑھتے ہوئے سناٹے میں

دل دھڑکنے کی بھی اک دن نہ صدا پاؤ گے

اس قدر پاس سے ممکن ہے حسیں لگ نہ سکے

جس قدر دُور سے چہرہ وہ بھُلا پاؤ گے

اس اذیت سے ملے گی نہ جہانگیر نجات

سر پہ تم اپنے ہمیشہ یہ بلا پاؤ گے


علیم جہانگیر

No comments:

Post a Comment