راکھ خوابوں کی کریدو گے تو کیا پاؤ گے
اور کچھ اپنی اداسی کو سِوا پاؤ گے
چلچلاتی ہوئی اس دھوپ میں نکلو گے اگر
اپنے سائے کا بھی شاید نہ پتہ پاؤ گے
تنگ و تاریک سے اس گھر کے کسی گوشے میں
روشنی اب نہ وہ خوشبو، نہ ہوا پاؤ گے
کیا عجب رات کے بڑھتے ہوئے سناٹے میں
دل دھڑکنے کی بھی اک دن نہ صدا پاؤ گے
اس قدر پاس سے ممکن ہے حسیں لگ نہ سکے
جس قدر دُور سے چہرہ وہ بھُلا پاؤ گے
اس اذیت سے ملے گی نہ جہانگیر نجات
سر پہ تم اپنے ہمیشہ یہ بلا پاؤ گے
علیم جہانگیر
No comments:
Post a Comment