مقام آدمیت امتحاں کی منزل ہے
کسی کے واسطے آساں کسی کو مشکل ہے
نہیں فریب خلوص اور خلوص میں کوئی فرق
بہ یک نگاہ کریں امتیاز مشکل ہے
یہیں سے راستے امکان کے نکلتے ہیں
ہمارا قلب مصفا ایک ایسی منزل ہے
مِرا رفیق تلوّن مزاج ہے اپنا
کبھی ہے برق تڑپتی کبھی دل ہے
یہی وہ دل ہے جو بے موت مارتا ہے ہمیں
ہمارے سینے کے اندر ہمارا قاتل ہے
زباں سے کیوں کہے وہ بات دل کی تو جو سنے
خموش اس لیے ہر وقت تیرا سائل ہے
چراغ کون جلاتا ہے چودھویں شب میں
ہماری بزم کی قندیل ماہِ کامل ہے
سکوں نصیب بظاہر مجھے مگر اکمل
وطن کے واسطے سینے میں دل تو بسمل ہے
اکمل آلدوری
No comments:
Post a Comment