Sunday, 1 June 2025

مقام آدمیت امتحاں کی منزل ہے

 مقام آدمیت امتحاں کی منزل ہے

کسی کے واسطے آساں کسی کو مشکل ہے

نہیں فریب خلوص اور خلوص میں کوئی فرق

بہ یک نگاہ کریں امتیاز مشکل ہے

یہیں سے راستے امکان کے نکلتے ہیں

ہمارا قلب مصفا ایک ایسی منزل ہے

مِرا رفیق تلوّن مزاج ہے اپنا

کبھی ہے برق تڑپتی کبھی دل ہے

یہی وہ دل ہے جو بے موت مارتا ہے ہمیں

ہمارے سینے کے اندر ہمارا قاتل ہے

زباں سے کیوں کہے وہ بات دل کی تو جو سنے

خموش اس لیے ہر وقت تیرا سائل ہے

چراغ کون جلاتا ہے چودھویں شب میں

ہماری بزم کی قندیل ماہِ کامل ہے

سکوں نصیب بظاہر مجھے مگر اکمل

وطن کے واسطے سینے میں دل تو بسمل ہے


اکمل آلدوری

No comments:

Post a Comment