آگہی کے شہر میں یہ حادثہ دیکھا گیا
پھینک کر سنگِ ملامت آئینہ توڑا گیا
ذہن پر احساسِ محرومی کا پردہ ڈال کر
کتنے لوگوں کو بھرے بازار میں لوٹا گیا
ٹوٹتے رشتوں کو پھر تجدید کرنے کے لیے
زندگی کے ساز کو نغمہ نیا بخشا گیا
بوند بھر پانی کو پھر ترسے گی یہ سوکھی زمیں
سبز اور شاداب پیڑوں کو اگر کاٹا گیا
ہم نے بھی چھپ چھپ کے دیکھی ہیں وہاں تاریکیاں
روشنی کا قامتِ بالا جہاں ناپا گیا
ایک ہی دھرتی ہے جب اور ایک اس کا آسماں
آدمی کو پھر کئی فرقوں میں کیوں بانٹا گیا
منتشر اوراق غم کرنے سے پہلے کیوں سحر
مدتوں سنجیدگی سے بیٹھ کر سوچا گیا
نفیس احمد سحر
No comments:
Post a Comment