Monday, 2 June 2025

دیوانے گریباں کے ہر تار سے الجھے

 دیوانے گریباں کے ہر تار سے الجھے

صحرا سے جو گزرے تو سرِ خار سے الجھے

مجبور سے الجھے، کبھی مختار سے الجھے

یعنی کبھی دل سے، کبھی دلدار سے الجھے

الجھاؤ ہی الجھاؤ ہے تقدیر میں شاید

دامن سے کبھی جبہ و دستار سے الجھے

بہکا دیا جو غیر کے نقشِ پا نے

کیا کرتے فقط اپنی ہی رفتار سے الجھے

بازارِ محبت میں نہ حُجت ہے نہ تکرار

دل دے کے کوئی کیسے خریدار سے الجھے

جب لگ نہ سکی شہر میں شہکار کی قیمت

مجبور تھے خود اپنے ہی شہکار سے الجھے

آزاد! نرالی ہیں زمانے کی فضائیں

حق بات پہ ہم روز ہی دو چار سے الجھے


آزاد ساحری

No comments:

Post a Comment