جب سے ان سے اپنا یارانہ ہوا
اپنا دل اپنوں سے بیگانہ ہوا
دل میں جب سے وہ ہوئے مسند نشیں
یک بیک آباد ویرانہ ہوا
یار کے در کی گدائی کیا ملی
اب مزاج اپنا یہ شاہانہ ہوا
جو فراق یار میں آنسو بہا
گر کے دامن میں وہ دردانہ ہوا
آپ کا عاشق فقط میں ہی نہیں
اک زمانہ ہے جو دیوانہ ہوا
میرے گھر جب سے کہ تم آنے لگے
غیرت جنت یہ کاشانہ ہوا
جام مے لینے نہ پایا تھا ابھی
دیکھ کر ساقی کو مستانہ ہوا
اے صبا آتی ہے تجھ سے بوئے دوست
یار کے گیسو میں کیا شانہ ہوا
دم بدم آنے لگے دل میں مرے
غم کدہ ان کا جلو خانہ ہوا
بڑھ گیا ہے اس قدر جوش جنوں
ہر جگہ میرا ہی افسانہ ہوا
دیکھ لی دنیا کی حالت اے قمر
آج کل اپنا یہی بیگانہ ہوا
قمرالدین ہلالی
No comments:
Post a Comment