Monday, 2 June 2025

جب سے ان سے اپنا یارانہ ہوا

 جب سے ان سے اپنا یارانہ ہوا

اپنا دل اپنوں سے بیگانہ ہوا

دل میں جب سے وہ ہوئے مسند نشیں

یک بیک آباد ویرانہ ہوا

یار کے در کی گدائی کیا ملی

اب مزاج اپنا یہ شاہانہ ہوا

جو فراق یار میں آنسو بہا

گر کے دامن میں وہ دردانہ ہوا

آپ کا عاشق فقط میں ہی نہیں

اک زمانہ ہے جو دیوانہ ہوا

میرے گھر جب سے کہ تم آنے لگے

غیرت جنت یہ کاشانہ ہوا

جام مے لینے نہ پایا تھا ابھی

دیکھ کر ساقی کو مستانہ ہوا

اے صبا آتی ہے تجھ سے بوئے دوست

یار کے گیسو میں کیا شانہ ہوا

دم بدم آنے لگے دل میں مرے

غم کدہ ان کا جلو خانہ ہوا

بڑھ گیا ہے اس قدر جوش جنوں

ہر جگہ میرا ہی افسانہ ہوا

دیکھ لی دنیا کی حالت اے قمر

آج کل اپنا یہی بیگانہ ہوا


قمرالدین ہلالی

No comments:

Post a Comment