پیٹھ پیچھے سے تیرے وار بھی دیکھ آئے ہیں
جو تھا پوشیدہ وہ کردار بھی دیکھ آئے ہیں
خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے والے
اپنی آنکھوں سے تیری ہار بھی دیکھ آئے ہیں
خود کو جو چارہ گرِِ قوم کہا کرتے ہیں
بر لبِ گور وہ بیمار بھی دیکھ آئے ہیں
نہ ڈرا آگ سے؛ بیٹا ہوں براہیمؑ کا میں
تیرے نمرود کی وہ نار بھی دیکھ آئے ہیں
جس کو دعویٰ ہے خدائی کا زمیں پر سُن لے
ہم تو فرعون کا دربار بھی دیکھ آئے ہیں
اور کیا چاہیے اے ارضِ وطن! تیرے لیے
طوق بھی چُوم لیا، دار بھی دیکھ آئے ہیں
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment