بھیڑ
کہیں یہ وہ بھیڑ تو نہیں ہے
کہ جو درختوں میں زندہ نبیوں کو کاٹتی تھی
جو وقتِ تصلیبِ ابن مریمؑ تماش بیں تھی
جو آگ میں پھینکے جانے والے
خلیلِ یزداں پہ ہنس رہی تھی
جو ثور کی غار تک نبیؐ کو
شہید کرنے چلی گئی تھی
جو شہرِ طائف میں سنگ اٹھائے
نبیؐ کو زخموں سے بھر رہی تھی
جو کربلا میں حسینؑ کے سر کو
نیزے پر رکھ کے گھومتی تھی
یہ بھیڑ ویسی ہی لگ رہی ہے
یہ بھیڑ دعوے تو کر رہی ہے
اک ایسے انساں کی پیروی کے
جو اپنے دشمن پہ مہرباں تھا
اگر کہیں کوئی کوڑا پھینکے تو مسکراتا
اگر خدا بھی کہے کہ طائف کے سنگباروں کو بد دعا دو
تو وہ انہیں بھی دعائیں دیتا
جو فتح پاتا تو شہر بھر کی ہر ایک غلطی معاف کرتا
جو قتل کرنے کو ڈھونڈتے تھے انہیں بلا کر گلے لگاتا
یہ بھیڑ دعوے ہی کر رہی ہے
یہ بھیڑ لوگوں کو مارتی ہے
یہ بے گناہوں کو کاٹتی ہے
یہ مسخ کرتی ہے لاش تک کو
یہ کس پیمبر کی پیروی ہے
یہ کس خدا نے کہا ہوا ہے
میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
یہ بھیڑ جس میں
ہزاروں ریپسٹ
لاکھوں راشی
کروڑوں جھوٹے چھپے ہوئے ہیں
کہیں یہ وہ بھیڑ تو نہیں ہے
کہ جو درختوں میں زندہ نبیوں کو کاٹتی تھی
شعیب کیانی
No comments:
Post a Comment