خدا کی شان ہم پھر کوچۂ دلدار میں آئے
خوشا قسمت کہ پھر ہم آج بزم یار میں آئے
کرے کوئی زلیخا قدردانی دیکھیے کب تک
وہ یوسف ہیں کہ بکنے مصر کے بازار میں آئے
طبیعت ہو چکی ہے سیر اپنی سیر گلشن سے
جنوں کی خیر ہو پھر وادیٔ پر خار میں آئے
بہت اکتا گئے صحرا کی تپتی دھوپ سے جب ہم
تو پھر آخر تمہارے سایۂ دیوار میں آئے
خزاں کے دور میں کیا سیر گلشن کے لیے آتے
گلوں پر جب بہار آئی تو ہم گلزار میں آئے
کسے کس نے بلایا کون آیا کس لیے آیا
مناسب ہے نہ اب یہ تذکرہ اغیار میں آئے
سزا کا مستحق ہونا زباں بندی سے بہتر ہے
صدائے حق کی خاطر جستجوئے دار میں آئے
تمہیں کو دیکھنے والے تھے ہم آخر کہاں جاتے
تمہارے در پہ آخر حسرت دیدار میں آئے
بیان امکان سے باہر ہے جذبات عقیدت کا
گزرتی ہے جو دل پر کس طرح اشعار میں آئے
اطاعت قوت باطل کی ہو جائے نہ اے طلعت
کسی صورت نہ خم ہرگز سر خوددار میں آئے
طلعت نہٹوری
طلعت حسین صدیقی
No comments:
Post a Comment