Tuesday, 3 June 2025

خدا کی شان ہم پھر کوچۂ دلدار میں آئے

 خدا کی شان ہم پھر کوچۂ دلدار میں آئے

خوشا قسمت کہ پھر ہم آج بزم یار میں آئے

کرے کوئی زلیخا قدردانی دیکھیے کب تک

وہ یوسف ہیں کہ بکنے مصر کے بازار میں آئے

طبیعت ہو چکی ہے سیر اپنی سیر گلشن سے

جنوں کی خیر ہو پھر وادیٔ پر خار میں آئے

بہت اکتا گئے صحرا کی تپتی دھوپ سے جب ہم

تو پھر آخر تمہارے سایۂ دیوار میں آئے

خزاں کے دور میں کیا سیر گلشن کے لیے آتے

گلوں پر جب بہار آئی تو ہم گلزار میں آئے

کسے کس نے بلایا کون آیا کس لیے آیا

مناسب ہے نہ اب یہ تذکرہ اغیار میں آئے

سزا کا مستحق ہونا زباں بندی سے بہتر ہے

صدائے حق کی خاطر جستجوئے دار میں آئے

تمہیں کو دیکھنے والے تھے ہم آخر کہاں جاتے

تمہارے در پہ آخر حسرت دیدار میں آئے

بیان امکان سے باہر ہے جذبات عقیدت کا

گزرتی ہے جو دل پر کس طرح اشعار میں آئے

اطاعت قوت باطل کی ہو جائے نہ اے طلعت

کسی صورت نہ خم ہرگز سر خوددار میں آئے


طلعت نہٹوری

طلعت حسین صدیقی

No comments:

Post a Comment