Tuesday, 3 June 2025

جسم کی قید میں ہوں کشمکش ذات میں ہوں

 جسم کی قید میں ہوں کشمکش ذات میں ہوں

ایک سکے کی طرح کاسۂ خیرات میں ہوں

تم سے ملنے کے لیے تم سے جدا ہوتا ہوں

کیا کروں جانِ وفا! نرغۂ حالات میں ہوں

کل کا دن کیوں نہ رکھیں ترک تعلق کے لیے

آج کچھ میں بھی تمہاری طرح جذبات میں ہوں

کار تیشہ بھی وہی ہے،۔ مرا پیشہ بھی وہی

میں ابھی دور غلامی ہی کے حالات میں ہوں

ذرے ذرے مرے اٹھ اٹھ کے قدم لینے لگے

وادئ قیس میں کچھ مقامات میں ہوں

اب مری سمت کوئی آنکھ اٹھاتا بھی نہیں

جب سے دیکھا ہے تجھے میں بھی حجابات میں ہوں

پردۂ شعر سے بولے ہے مِرا یار ثنا

میں ہی قرآن میں انجیل میں تورات میں ہون


ثنا گورکھپوری

No comments:

Post a Comment