Tuesday, 3 June 2025

سازشوں کی بھیڑ تھی چہرہ چھپا کر چل دئیے

 سازشوں کی بھیڑ تھی چہرہ چھپا کر چل دئیے

نفرتوں کی آگ سے دامن بچا کر چل دئیے

نا مکمل داستاں دل میں سمٹ کر رہ گئی

وہ زمانہ کی کئی باتیں سنا کر چل دئیے

ذکر میرا گفتگو میں جب کبھی بھی آ گیا

مسکرائے اور پھر نظریں جھکا کر چل دئیے

منزل دیوانگی حاصل ہوئی یوں ہی نہیں

کیا بتائیں پیار میں کیا کیا گنوا کر چل دئیے

وقت سے پہلے بڑا ہونے کا یہ حاصل ہوا

تشنگی میں ہم سمندر کو اٹھا کر چل دئیے

رنگ کالا پڑ گیا ہے مرمری تقدیر کا

مفلسی کی دھوپ میں ارماں جلا کر چل دئیے


سمیر پرمل

No comments:

Post a Comment