سازشوں کی بھیڑ تھی چہرہ چھپا کر چل دئیے
نفرتوں کی آگ سے دامن بچا کر چل دئیے
نا مکمل داستاں دل میں سمٹ کر رہ گئی
وہ زمانہ کی کئی باتیں سنا کر چل دئیے
ذکر میرا گفتگو میں جب کبھی بھی آ گیا
مسکرائے اور پھر نظریں جھکا کر چل دئیے
منزل دیوانگی حاصل ہوئی یوں ہی نہیں
کیا بتائیں پیار میں کیا کیا گنوا کر چل دئیے
وقت سے پہلے بڑا ہونے کا یہ حاصل ہوا
تشنگی میں ہم سمندر کو اٹھا کر چل دئیے
رنگ کالا پڑ گیا ہے مرمری تقدیر کا
مفلسی کی دھوپ میں ارماں جلا کر چل دئیے
سمیر پرمل
No comments:
Post a Comment