دئیے کو پھر بجھانا چاہتی ہے
ہوا کوئی بہانہ چاہتی ہے
سُجھانا چاہتا ہے راہ تارا
مگر شب بیت جانا چاہتی ہے
نئی شاخیں شجر پر کب اُگیں گی
کہ چڑیا آشیانہ چاہتی ہے
نئے گاؤں بیاہی ہیر لیکن
وہی رانجھا پُرانا چاہتی ہے
مجھے تسخیر کر لینے سے پہلے
وفا زنداں بنانا چاہتی ہے
یہی ساعت ہے سب کچھ مانگنے کی
دُعا پھر مسکرانا چاہتی ہے
ڈاکٹر ناہید شاہد
No comments:
Post a Comment