Saturday, 7 June 2025

دئیے کو پھر بجھانا چاہتی ہے

دئیے کو پھر بجھانا چاہتی ہے

ہوا کوئی بہانہ چاہتی ہے

سُجھانا چاہتا ہے راہ تارا

مگر شب بیت جانا چاہتی ہے

نئی شاخیں شجر پر کب اُگیں گی

کہ چڑیا آشیانہ چاہتی ہے

نئے گاؤں بیاہی ہیر لیکن

وہی رانجھا پُرانا چاہتی ہے

مجھے تسخیر کر لینے سے پہلے

وفا زنداں بنانا چاہتی ہے

یہی ساعت ہے سب کچھ مانگنے کی

دُعا پھر مسکرانا چاہتی ہے


ڈاکٹر ناہید شاہد

No comments:

Post a Comment