سچ کے گلے میں جھوٹ کا خنجر اتر گیا
الزام میرے قتل کا میرے ہی سر گیا
ہمدرد جو نگاہ تھی بے نور ہو گئی
خنجر کی پیاس دیکھ کے قاتل بھی ڈر گیا
جس کو رہا عزیز تقدس صلیب کا
اپنے لہو سے وقت کو رنگین کر گیا
یادوں کے پنکھ دل میں اترتے ہیں اب کہاں
بس اک خیال ذہن کو چھو کر گزر گیا
اس کے بدن کا روپ اسی کے قبا کے رنگ
اکثر لگا کہ صحن چمن میں بکھر گیا
کتنا وہ مہربان تھا صحرا میں بھی شہاب
میں دھوپ میں کھڑا تھا تو مجھ تک شجر گیا
منظر شباب
No comments:
Post a Comment