Wednesday, 4 June 2025

آئیں گے وہ کبھی مگر زیست کا اعتبار کیا

 آئیں گے وہ کبھی مگر زیست کا اعتبار کیا

لائے گا رنگ دیکھیے عالم انتظار کیا

اپنی خوشی نہ آئے ہیں اپنی خوشی نہ جائیں گے

ان کے حریمِ ناز میں ہم کو ہے اختیار کیا

قید قفس میں ہم نفس گزری ہو جس کی زندگی

اس کو خزاں کی کیا خبر جانے گا وہ بہار کیا

ہے یہ حیات‌‌ جاوداں ہے یہی عیش سرمدی

ہیں جو وفا میں لذتیں جانے ستم شعار کیا

بازئ عشق ہار کر بیٹھے ہیں بے خبر سے ہم

سود ہے کیا زیاں ہے کیا، نقد ہے کیا، ادھار کیا

کشمکش حیات ہے رونقِ محفل حیات

دل کو ہمارے جیتے جی آئے گا پھر قرار کیا

موسم گل کے آتے ہی ہم تو اسیر ہو گئے

قہد قفس ہے اے نظیر! حاصلِ نو بہار کیا


سعادت نظیر

No comments:

Post a Comment