Thursday, 5 June 2025

کتاب زیست میں ایسا کوئی بھی باب نہیں

کتاب زیست میں ایسا کوئی بھی باب نہیں

تمہارے عشق کا جس پر لکھا حساب نہیں

شراب خانے میں دو بوند بھی شراب نہیں

ہمارے واسطے اس سے بڑا عذاب نہیں

ہوئی یہ زندگی تاریک رات کے مانند

تو ماہتاب نہیں میں بھی آفتاب نہیں

نئی حیات میں ڈھلنا پڑے گا اب اس کو

یہ زندگی تو محبت میں کامیاب نہیں

تو اپنی آنکھوں کا چشمہ بدل کے دیکھ مجھے

جہان جتنا ہے اتنا تو میں خراب نہیں

ہمیں بھی ترک تعلق کا خاک ہو افسوس

بچھڑ کے ہم سے تمہیں بھی تو اضطراب نہیں

یہ مے کدہ ہے یہاں ہے ہر ایک شخص قبول

کوئی شریف نہیں ہے کوئی خراب نہیں

خزاں نے کون سی ترتیب سے کیا برباد

کسی بھی شاخ پہ گلشن میں اک گلاب نہیں


اے آر ساحل علیگ 

No comments:

Post a Comment