گویا ہے تاب عشق میں بیمار کی طلب
آ جا تو اب سمجھ کے دل زار کی طلب
پھر چشم وا کرے ہے رخ یار کی طلب
کہ دید کو ہے پھر کسی دیدار کی طلب
اور لمس کو ہے پھر اسی رخسار کی طلب
ابرو کرے ہے پھر سے نگہ یار کی طلب
پھر رخش کو خیال کے رفتار کی طلب
بادہ کرے ہے پھر اسی سرشار کی طلب
پھر نور کو ہوئی ہے شب تار کی طلب
پھر آبلہ کرے ہے سر خار کی طلب
پھر کام کو وہی ہے رہ دار کی طلب
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عین سین
عامر سیدین
No comments:
Post a Comment