Thursday, 5 June 2025

عشق کی بات وفاؤں کی کہانی رکھ دے

 عشق کی بات وفاؤں کی کہانی رکھ دے

ہو گئی آج ہر اک رسم پرانی رکھ دے

منتظر ہے مِری پیشانی کسی سورج کی

اپنے ہونٹوں سے جو تو ایک نشانی رکھ دے

گفتگو میری مرا دوست سمجھتا ہی نہیں

اس کے دل میں مِرے لفظوں کے معانی رکھ دے

وہ بھی سیراب ہوں صدیوں سے جو پیاسے ہی رہے

خشک صحراؤں میں دریاؤں کا پانی رکھ دے

میں شرر بولوں تو ایوان سیاست جل جائے

میرے الفاظ میں وہ شعلہ بیانی رکھ دے


انعام شرر ایوبی

No comments:

Post a Comment