میں لبِ دریا کھڑا ہوں تشنگی بُجھتی نہیں
آج تک پیاسا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
پڑتی ہے پیاسے بدن پر مست ساون کی پھوار
رُوح تک بھیگا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
میں کوئی مجبور و بے بس تو نہیں ہوں اے فرات
پیاس سے رُوٹھا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
بے مزا سی ہو گئی ہے زندگی تیرے بغیر
غمزدہ تنہا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
درد کی دولت کا میں اتنا پُجاری ہوں خلش
درد میں ڈُوبا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
عباس خلش
No comments:
Post a Comment