وہ جنہیں غم بھلے سے لگتے ہیں
حادثوں میں پلے سے لگتے ہیں
ان سے ماضی کی داستاں پوچھو
وہ جو کھنڈر جلے سے لگتے ہیں
ہم سجاتے ہیں بزم یادوں کی
جب کبھی فاصلے سے لگتے ہیں
جو گزرتے ہیں تیری یادوں میں
ایک لمحے بھلے سے لگتے ہیں
آستینوں میں جن کے خنجر ہیں
وہ بھی اکثر گلے سے لگتے ہیں
یہ تو راہی کے واسطے ہیں پھول
جو تمہیں آبلے سے لگتے ہیں
کاظم رضا راہی
No comments:
Post a Comment