خبر یہ تھی کہ فریب نظر کا موسم ہے
یہاں تو معرکۂ خیر و شر کا موسم ہے
بنا رہا ہوں خود اپنے لہو سے نقش و نگار
کہ یہ نمائش دیوار و در کا موسم ہے
یہ زرد زرد سے چہروں پہ لکھ دیا کس نے
ہمارے شہر میں بارانِ زر کا موسم ہے
خزاں رسیدہ ہوئی فکر و فن کی زرخیزی
یہ خشک سالئ علم و ہنر کا موسم ہے
گزر ہی جاؤں گا کرب و بلا کے صحرا سے
اگرچہ سخت ہے لیکن سفر کا موسم ہے
فاروق ارگلی
کنور محمد فاروق خاں
No comments:
Post a Comment