Sunday, 8 June 2025

دیکھتے دیکھتے چیونٹیاں کتنی روندی گئیں

 دردمندی


دیکھتے دیکھتے

چیونٹیاں کتنی روندی گئیں

آخری سانس تک

پلٹ کر جھپٹنے کی امید میں

سر اٹھاتی رہیں

دیکھتے دیکھتے

میرے اعصاب میں

بجلیاں گھل گئیں

رینگتی چیونٹیاں

جلد کو چیر کر

خون میں مل گئیں

اب میں کوئی اور ہوں

ایک گھائل درندہ کہ جس کے لیے

زخم ہی زخم ہیں

(چاہے اپنے ہوں یا دوسروں کے)

آخری سانس تک

زخم ہی زخم ہیں

ساری بستی ہے سہمی ہوئی

لوگ سب فلسفے

باندھ کر بھاگ اٹھے

مجھ پہ اب کوئی ہنستا نہیں

میں اکیلا مگر

کل بڑی دیر تک خود پہ ہنستا رہا

آئینے سے یہ کہتا رہا؛

یا تو ہر درد کے کوئی معنی ہیں

یا پھر کسی درد کے کوئی معنی نہیں


قاضی سلیم

No comments:

Post a Comment