سنا ہے جب سے خدا کا کلام راحت ہے
ہر ایک درس کا موضوع عام راحت ہے
کدورتوں سے کشائش ملا نہیں کرتی
جہان بھر کو ہمارا پیام راحت ہے
میں اختیار کے ہوتے ہوئے کہاں خوش تھا
ہوا ہوں جب سے کسی کا غلام راحت ہے
میں دشت و شہر و گلستاں میں بے سکون رہا
کیا ہے ذات میں جب سے قیام راحت ہے
ستا ستا کے پریشان ہو گیا ہے عدو
کئی دنوں سے ہمیں صبح و شام راحت ہے
یہ آ رہی ہے مِری سمت روکنا نہ اسے
سبک روی سے جو محو خرام راحت ہے
دکھے دلوں سے لگاوٹ سے بات کر لینا
سکون دل کے لیے احترام راحت ہے
یہ قصر لطف بنایا ہے عابدی نے مگر
محبتوں میں فقط انہدام راحت ہے
خواجہ علی حسین عابدی
No comments:
Post a Comment