Monday, 9 June 2025

سنا ہے جب سے خدا کا کلام راحت ہے

 سنا ہے جب سے خدا کا کلام راحت ہے

ہر ایک درس کا موضوع عام راحت ہے

کدورتوں سے کشائش ملا نہیں کرتی

جہان بھر کو ہمارا پیام راحت ہے

میں اختیار کے ہوتے ہوئے کہاں خوش تھا

ہوا ہوں جب سے کسی کا غلام راحت ہے

میں دشت و شہر و گلستاں میں بے سکون رہا

کیا ہے ذات میں جب سے قیام راحت ہے

ستا ستا کے پریشان ہو گیا ہے عدو

کئی دنوں سے ہمیں صبح و شام راحت ہے

یہ آ رہی ہے مِری سمت روکنا نہ اسے

سبک روی سے جو محو خرام راحت ہے

دکھے دلوں سے لگاوٹ سے بات کر لینا

سکون دل کے لیے احترام راحت ہے

یہ قصر لطف بنایا ہے عابدی نے مگر

محبتوں میں فقط انہدام راحت ہے


خواجہ علی حسین عابدی

No comments:

Post a Comment