حادثے میں نے غم و کرب کے جھمیلے کتنے
وقت نے ساتھ لگائے تھے جھمیلے کتنے
تلخ لہجوں کے وہ چبھتے ہوئے نشتر کے گھاؤ
مجھ سے مت پوچھ مِری روح میں پھیلے کتنے
جب سے دیکھا ہے تِرے ساتھ کسی کو میں نے
ذہن میں آتے ہیں شبہات کے ریلے کتنے
سوچتا ہوں کبھی ہے اینٹ کا پتھر ہی جواب
وقت پھینکے گا میری راہ میں ڈھیلے کتنے
دل دُکھا جاتی ہیں بھُولی ہوئی لاکھوں یادیں
اور ہر سال گزر جاتے ہیں میلے کتنے
جس کو چھُونے کے تصور پر بھی قدغن ہے سلیم
خواب میں اس زلفِ گِرہ گیر سے کھیلے کتنے
ایوب سلیم
No comments:
Post a Comment