Monday, 11 August 2025

پرانی الجھنیں سلجھا رہا ہوں

 پرانی الجھنیں سلجھا رہا ہوں

مگر اپنے لیے ایک مسئلہ ہوں

میں اپنے شہر کی گلیوں میں اکثر

خود اپنے آپ کو ہی ڈھونڈتا ہوں

مجھے چھیڑو نہ تم سنگِ ستم سے

میں طوفاں ہوں مگر ٹھہرا ہوا ہوں

اجالوں کے لیے میں اپنے گھر میں

لہو بن کر چراغوں میں جلا ہوں

تمہاری روشنی تم کو مبارک

میں پانی روشنی میں چل رہا ہوں

نہ کیجیے کوششیں چارہ گری کی

میں پانے درد کی خود ہی دوا ہوں

مجھے زخم اپنوں نے دئیے ہیں

سراپا درد بن کر رہ گیا ہوں


ارمان اکبرآبادی

سعید احمد

No comments:

Post a Comment