پرانی الجھنیں سلجھا رہا ہوں
مگر اپنے لیے ایک مسئلہ ہوں
میں اپنے شہر کی گلیوں میں اکثر
خود اپنے آپ کو ہی ڈھونڈتا ہوں
مجھے چھیڑو نہ تم سنگِ ستم سے
میں طوفاں ہوں مگر ٹھہرا ہوا ہوں
اجالوں کے لیے میں اپنے گھر میں
لہو بن کر چراغوں میں جلا ہوں
تمہاری روشنی تم کو مبارک
میں پانی روشنی میں چل رہا ہوں
نہ کیجیے کوششیں چارہ گری کی
میں پانے درد کی خود ہی دوا ہوں
مجھے زخم اپنوں نے دئیے ہیں
سراپا درد بن کر رہ گیا ہوں
ارمان اکبرآبادی
سعید احمد
No comments:
Post a Comment